اس بھارتی گاؤں میں اب لوگ لڑکے نہیں لڑکیاں چاہتے ہیں❤️ درخت لڑکیوں کے بھائی ہیں ❤️ غم اور محبت سے انقلاب آگیا
راجھستان ویسے بھی صحرائی علاقہ ہے لیکن اس کا گاؤں پیپلانتری تو اردگرد کان کنی کے نتیجے میں بالکل بنجر اور اجاڑ ہوگیا تھا. لیکن آج صرف چودہ سال بعد یہ اور اس سے ملحق پانچ گاؤں اتنے سرسبز ہیں کہ کوئی ہوائی جہاز سے دیکھے تو جنگل لگے گا.
یہ سب ایک والد کی فوت ہوجانے والی بیٹی سے محبت کے نتیجے میں ہوا.
شیام سندر پلی وال 2005 میں گاؤں کے سرپنچ بنے تھے دو سال بعد ان کی 17 برس کی بیٹی کرن ڈی ہائیڈریشن سے فوت ہو گئی۔
ان کے اہل خانہ نے کرن کے نام پر گاؤں کے دروازے کے قریب ایک درخت لگایا۔ پیپلانتری کے سرپنج کی حیثیت سے پالی وال نے سوچا کیوں نہ اس منفرد واقعہ کو ایک بڑے پروگرام میں تبدیل کردیا جائے. جلد ہی دوسرے دیہاتیوں نے ان کی بات پر عمل شروع کر دیا۔
اب جب بھی پیپلانتری میں ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے سب گاؤں والے مل کر 111 درخت لگاتے ہیں۔ یہ عدد بہت اچھا شگون سمجھا جاتا ہے۔
اس خطے میں اب آم اور گوزبیری سے لے کر صندل، نیم، پیپل اور بانس کے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ درخت ہیں.
درخت لگانے کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کے والدین ایک حلف نامے پر بھی دستخط کرتے ہیں کہ وہ 18 سال سے پہلے ان بچیوں کی شادی نہیں کریں گے اور انھیں سکول بھیجتے رہیں گے۔ دیہاتی 31 ہزار روپے ہر لڑکی کا فکسڈ ڈپازٹ اکاؤنٹ کھولنے کے لیے بھی جمع کر لیتے ہیں جو 18 سال کی ہو جانے کے بعد وہ اپنی تعلیم کے لیے یا اپنی شادی کے اخراجات ادا کرنے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔
ہر پیدا ہونے والی لڑکی کے لئے 111 درخت لگانے کے علاوہ مون سون کے دوران ہر اگست میں ایک خصوصی تقریب پچھلے 12 ماہ میں پیدا ہونے والی تمام لڑکیوں کے لیے منعقد کی جاتی ہے۔
جوان ہوتی ہوئی لڑکیاں جن کے نام پر درخت لگائے گئے اب وہ پودوں کے ارد گرد راکھی کڑا باندھنے آتی ہیں، انھیں وہ اپنا بھائی سمجھتی ہیں، اور روایتی راکھی بندھن کے تہوار کی طرح ان کی پوجا کرتی ہیں۔
پیپلانتری کے درخت بڑھ رہے ہیں اس کے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہوئی ہے اور ایک ثقافتی تبدیلی نے یہاں کی عورتوں کی حیثیت کو بلند کیا ہے۔ یہاں کی لڑکیاں اب ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھنے لگی ہیں.
گاؤں میں خواتین کے لیے کوآپریٹیوز قائم کیے گئے ہیں جو گاؤں میں فروخت کرنے کے لیے ایلو ویرا کا جوس، مربّے اور دوسری کھانے کی اشیاء تیار کرتے ہیں۔اب ان کا بیر، بانس اور شہد سے چیزیں بنانے کا پروگرام ہے.
ایک بزرگ خاتون نے کہا جب سے اس گاؤں پیپلانتری نے لڑکیوں کی عزت کرنا شروع کی ہے، انھوں نے بھی پوتیوں کی خواہش کرنا شروع کردی ہے۔ ان کی دو پوتیاں ہیں، وہ پیدا ہوئیں تو درخت لگائے گئے تھے۔ پہلے انھیں بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ اب ہم ایسا نہیں سوچتے ہیں۔ ہمیں بیٹوں کی کوئی خاص خواہش نہیں ہے۔
انھوں نے چاروں طرف درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ 'یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ ہم نے سخت محنت کی، اب ہمیں روزگار اور آمدنی سب کچھ مل جاتا ہے۔'
شیام سندر نے کہا ' ہمارا نقطہ نظر قدرتی وسائل کے ذریعہ روزگار پیدا کرنا ہے۔'
جب بھی کوئی مرتا ہے تو تب بھی گاؤں والے 11 درخت لگاتے ہیں۔
پیپلانتری کے آبی ذخیرہ بنانے کے منصوبے میں پانی کے بہاؤ کو ایک اور گڑھے میں جمع کرنے، بند اور ڈیم بنا کر زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرنا شامل ہے۔
گاؤں میں اس سارے انقلاب کا سبب بننے والی کرن کا مجسمہ جس جگہ لگایا گیا ہے، اس کے ارد گرد، پینے کے بہنے والے پانی میں ہنس اور مور پر پھڑپھڑاتے ہوئےاور خرگوش ادھر ادھر بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں.
روزانہ 55 سے 60 افراد پیپلنتری دیکھنے آتے ہیں۔
یہاں کے سکولوں میں لڑکیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے. مثلاً ایک کلاس میں لڑکے 19 ہیں تو لڑکیاں 33.
12 سال پہلے بیاہ کر اس گاؤں آنے والی سنگیتا پالی وال نے گاؤں کے ماحول سے متاثر ہوکر تعلیم جاری رکھی اور فاصلاتی تعلیم سے کالج ڈگری حاصل کرلی ہے.
سنگیتا اپنے ماں باپ کے گاؤں میں چہرے کو گھونگٹ سے ڈھانپتی تھی، لیکن اس جدید گاؤں پیپلنتری میں نہیں۔ وہ اب گاڑی بھی چلاتی ہے اور کام کرنا بھی شروع کردیا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
#SceneHai13